ۜمیرے اس گناہ کبیرہ سے پہلے ہمارے گھر رزق وسیع تھا‘ میرے شوہر کا شمار شہر کی مشہور کاروباری شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اب 3 سال ہوگئے ہیں میرے شوہر گھر بیٹھے ہوئے ہیں‘ کچھ نہیں کرتے‘ اگر کچھ کہتی ہوں تو مجھےا ور میرے ماں باپ کو بہت ننگی اور گندی گالیاں دیتے ہیں
(رشیدہ خانم‘ لاہور)
کل میں مرغی کا گوشت لینے گئی‘ مرغی والے نے مرغی ذبح کی لیکن مرغی ابھی پوری طرح ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی اور وہ باقاعدہ تڑپ رہی تھی‘ دکاندار نے اس کی دونوں ٹانگیں کاٹ دیں‘ اس وقت میں اللہ اکبر کا ورد کررہی تھی کہ مرغی کیلئے آسانی ہو لیکن جب میں نے اُسے مرغی کو اذیت دیتے ہوئے دیکھاتو برداشت نہ کرسکی۔ میں نے اُسے خوب سنائیں‘ اسے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا‘ اللہ تعالیٰ کے فرمان بتائے اور خوب کھری کھری سنائیں۔ جب میں تھک گئی تو پھر اچانک میری نظر کرسی پر بیٹھے بچے پر پڑی۔ اس کا سر بہت بڑا تھا‘ میں دل میں سوچنا شروع ہوگئی کہ کتنا پیارا بچہ ہے مگر سر کتنا بڑا ہے‘ پھر اچانک میری نظر بچے کی ٹانگوں پڑی اُس کی ٹانگیں پتلی پتلی اورسوکھی ہوئی تھیں‘ پھر مجھے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ یہ مرغی بیچنے والے کا ہی لڑکا ہے‘ لڑکے کی عمر 6 سال تھی۔میں نے دکاندار سے کہا کہ توبہ کر‘ بچے کی طرف دیکھ اور سوچ کہ یہ ایسا کیو ںہے؟ یہ تیرے ہی گناہوں کا بوجھ لیکر بیٹھا ہوا ہے۔ میری باتیں سن کر دکاندار پریشان ہوگیا اور پاس پڑے بنچ پر بیٹھ گیا اور میں گھر آگئی۔
معافی مانگنا ہی عظمت مانگنا ہے
تحریر: حاجی فیض محمد صاحب (راوی: سید واجد حسین بخاری ایڈووکیٹ‘ احمد پور شرقیہ)
ہر آدمی میں اللہ پاک نے صفات رکھ دی ہیں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ پر اللہ پاک کی عنایات نہیں ہیں‘ اگر وہ خود ہی ناشکری کرے تو یہ اور بات ہے۔ میری زندگی میں مختلف لوگ شریک کاروبار رہے۔ ان میں ابتدائی دنوں میں عبدالشکور مرحوم تھے اور وہ ’’گرو‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان سے کاروبار علیحدہ کردیا گیا بعد میں انہوں نے بینک سے قرض لے کر کاروبار شروع کیا مگر بینک کی رقم سے بجائے کاروبار بڑھنے کے الٹا تمام کاروبار سود کی نذر ہوگیا۔ عبدالشکور کا کاروبار کی دنیا میں ایک نام تھا مگر آج محض سود کی وجہ سے اس کی اولاد مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔
دوسری شخصیت جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ چوہدری غلام محمد مرحوم تھے۔ چوہدری صاحب ہر دل عزیز‘ ملن سار‘ درد دل رکھنے والے شخص تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے بعد میں مرکزی انجمن تاجران احمد پور شرقیہ کے صدر رہے۔ انتظامیہ ان سے ڈرتی تھی‘ جہاں اصولوں کا معاملہ ہوتا تھا وہاں ڈٹ جایا کرتے تھے۔ سماجی خدمات میں دل کھول کر عطیات دیتے تھے۔ انتہائی نرم دل تھے مگر ان کا رعب و دبدبہ زیادہ تھا جتنے بھی بڑے شخص کے پاس جاتے تھے اس کی جرأت نہیں تھی کہ وہ انکار کردیتا۔ فیکٹری میں یا منڈی میں مزدور پیشہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں اور غلطیاں بھی بہت کرتے ہیں اور عام طور پر غلط بیانی بھی کرتے ہیں۔ ان باتوں سے چوہدری صاحب کو غصہ آجاتا تھا اور اس مزدور یا شخص سے ناراض ہوجاتے تھے مگر پانچ منٹ بعدان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا تھا اور کہتے تھے کہ کسی نے فلاں شخص سے زیادتی کی ہے اور بھری منڈی میں سب کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگتے تھے اور جب تک وہ یہ نہ کہتا کہ میں نے معاف کردیا‘ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے یہ ان کی عظمت کی نشانی تھی۔ اس وجہ سے لوگ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ سچ ہے کہ معافی مانگنا دراصل عظمت مانگنا ہے۔
بیٹی کو مارنے والی بدبخت ماں (گ،ع)
میری عمر 32 سال ہے اور میری شادی کو 8 سال ہوچکے ہیں‘میری شادی کے ایک سال بعد میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی‘ اس کے سال بعد میرے گھر دوسری بیٹی پیدا ہوئی جب میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو میرے شوہر کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہوئے تھے اور ان کے گھر آنے سے پہلے ہی وہ وفات پاگئی۔ دراصل جب میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا‘ وہ مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی‘ ایسے لگتا تھا کہ مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے‘ میں نے اُس کی طرف بالکل توجہ نہ دی اور میری لاپرواہی کی وجہ سے وہ بارہ دن کے بعد وفات پاگئی‘ اس کے بعد میں نے اپنے شوہر کو بتائے بغیر وقفے کے 3 ٹیکے لگوائے جو کہ صرف ایک سال کیلئے تھے۔اب 6 سال ہوگئے ہیں لیکن کوئی امید نظر نہیں آرہی‘ میں نے ان 6 سالوں میں اپنا بہت علاج کروایا‘ اب تو لیڈی ڈاکٹرز کہتی ہیں کہ تم میڈیکل کے لحاظ سے بالکل ٹھیک ہو اب صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نہیں کچھ ہورہا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرکے میں نے یہ اتنا بڑا گناہ ہے‘ مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔میرے اس گناہ کبیرہ سے پہلے ہمارے گھر رزق وسیع تھا‘ میرے شوہر کا شمار
شہر کی مشہور کاروباری شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ لیکن اب 3 سال ہوگئے ہیں میرے شوہر گھر بیٹھے ہوئے ہیں‘ کچھ نہیں کرتے‘ اگر کچھ کہتی ہوں تو مجھےا ور میرے ماں باپ کو بہت ننگی اور گندی گالیاں دیتے ہیں‘ سارے رشتے داروں کے سامنے اور گھر والوں کے سامنے مجھے بے عزت کرتے ہیں‘ ہر روز کا یہ معمول ہے۔ میں دن رات پاگلوں کی طرح روتی ہوں‘ ہر وقت استغفار کرتی ہوں کہ یااللہ مجھے معاف کردے۔
میں تمام بہنوں سے گزارش کروں گی کہ عارضی سہاروں اور فطری نظام میں خلل ڈالنے سے بچیں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور اس گناہ میں مبتلا ہو اور اس کا انجام بھی میری ہی طرح ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں